ہندوستانی ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور فلمسازوں کی مودی سرکارکے خلاف "ایوارڈواپسی" تحریک وزیراعظم نریندرمودی کا برطانیہ تک پیچھا کر رہی ہے۔ مودی برطانیہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر لندن پہنچے ہیں۔اس سے پہلے کہ ملکہء برطانیہ کے ساتھ لنچ کے دوران انہیں کچھ میٹھا پیش کیا جائے ، انہیں بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم رواداری کے خلاف حقوق انسانی کی تنظیموں، کشمیری حریت پسندوں اور برطانوی حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ ادیبوں کے احتجاج کی صورت میں کچھ کڑوے گھونٹ بھی پینے کو ملیں گے۔
200 سے زیادہ برطانوی ادیبوں نے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کو خط لکھا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خلوت و جلوت میں وزیراعظم مودی پر زور دیں کہ وہ ہندوستانی آئین میں دی گئی جمہوری آزادیوں کو یقینی بنائیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ بطورِ ادیب ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان میں خوف کا بڑھا ہے ، عدم رواداری کو فروغ ملا ہےاورقدامت پسندی اور بنیاد پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
خط میں وزیراعظم کیمرون کو یاددلایا گیا ہےکہ ہندوستان میں پچھلے دو سال کے دوران تین دانشوروں کو قتل کیا گیا۔ 1992ء سے اب تک لگ بھگ 37صحافی مارے گئے جبکہ کئی دیگر ادیبوں کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔پچھلے ایک ماہ کےدوران 40سے زیادہ ناول نگاروں، شاعروںاور ڈرامہ نویسوں نے بطورِ احتجاج ساہتیہ اکیڈمی کو اپنے ایوارڈز واپس کر دیے ہیں۔پھر ایک خاموش مارچ بھی کیا گیا جس کے بعد اکیڈمی اپنی قرارداد میں پروفیسر ایم ایم کلبرگی کے قتل کی مذمت کی لیکن مودی حکومت تاحال
اس قرارداد پر کسی قسم کے ردعمل سے قاصر رہی ہے۔
برطانوی ادیبوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اکتوبرمیں پاکستانی گلوکار غلام علی کو شیو سینانے ممبئی میں پرفارم کرنے سے روک دیا جو کہ بی جےپی کی اتحادی ہے۔اس کے کچھ دن بعد پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی روکنے کی کوشش کی گئی اور پروگرام کے منتظم سدھیندرا کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پھینک دی گئی۔اس پر بھی مودی سرکار کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی آئین کے تحت آزادیء اظہار کو ملک میں جمہوریت کے سنگِ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔لیکن اس آئینی پابندی کے باجود ہندوستان میںحیرت انگیز طور پربعض قوانین دوسروں کو خاموش کرنے کی راہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
خط کے آخر میں ڈیوڈ کیمرون کو کہا گیا ہےکہ انسانی حقوق کو فروغ دینے کے برطانیہ کے عزم کے ساتھ ، ہم ادیب آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ وزیر اعظم مودی کے ساتھ مندرجہ بالا مسائل زیربحث لائیںاور ان پر زور دیں کہ وہ ملک میںادیبوں، فنکاروں اور دیگر اہم آوازوں کو تحفظ فراہم کریں ۔ کیونکہ بہتر تحفظ کے بغیر ایک جمہوری، پرامن معاشرہ ممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم کیمرون کو خط لکھنے والے200 ادیبوں میں رفیق عبداللہ، سلمان رشدی، نیل مکھرجی ، میگی جبسن جیسے معروف ادیب اوربہت سی ادبی تنظیموں کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ سلمان رشدی نے "ایوارڈواپسی تحریک" کے آغاز میں ہی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے خلاف ادیبوں کے احتجاج کو درست قراردیا تھا۔